ادب

اُردو شاعری میں رنگوں کا استعمال

رنگ، انسانی زندگی میں رنگ بکھیرنے کے عمل میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ رنگ کائناتی ہوں یا جذباتی، یہ حقیقت ہے کہ رنگوں ہی کی بدولت اس کائنات اور انسانی شخصیات میں تنوع ہے۔ اگر اس کائنات میں رنگ نہ ہوتے تو زندگی بے کیف ہو کر رہ جاتی، اور انسان اس بے کیفی …

رنگ، انسانی زندگی میں رنگ بکھیرنے کے عمل میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ رنگ کائناتی ہوں یا جذباتی، یہ حقیقت ہے کہ رنگوں ہی کی بدولت اس کائنات اور انسانی شخصیات میں تنوع ہے۔ اگر اس کائنات میں رنگ نہ ہوتے تو زندگی بے کیف ہو کر رہ جاتی، اور انسان اس بے کیفی سے گھبرا کر زندگی کا خاتمہ کر بیٹھتا۔ آسمان میں سنہرا سورج چمکتا ہے تو چرخ کا رنگ نیلا اور چاند کی روشنی سفید۔ سبز پودے سے جب سرخ، گلابی، نیلے، پیلے، کالے، جامنی، سفید، زرد، کیسری اور بنفشی رنگ پھولوں کی صورت کھلتے ہیں تو جذبات میں بہار آ جاتی ہے اور زندگی مچل اٹھتی ہے۔
اگر رنگ کا وجود نہ ہوتا تو یہ تنوع، یہ تضاد وجود نہ رکھتے اور کائنات یک رخی، یک رنگی بن کر بے حیثیتی کی تصویر بن جاتی۔ کیوں کہ زندگی نام ہے تضاد کا۔ کائناتی وجود میں رنگوں کی وہی اہمیت ہے جو انسانی وجود میں زندگی کی اونچی نیچی دوڑتی سانسوں کی۔ رنگ اور جذبات کا گہرا تعلق ہے۔ جتنے زمین میں رنگ ہیں، اتنے ہی رنگوں کو انسانی وجود میں پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ انسانی وجود کا ہر رنگ ایک نئے اور انوکھے جذبہ کی کوکھ ہے۔
شاعر معاشرے کی زبان ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ دیکھتا ہے، سنتا ہے اور محسوس کرتا ہے اس کو بیان کرتا چلا جاتا ہے۔
دیکھنے کی دو اقسام ہیں۔ ایک دیکھنا ہے وہ دیکھنا ہے جس میں نظر باطن پر ہوتی ہے اور جذبات و احساسات دیکھے جاتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں اندرونی کائنات میں جھانکا جاتا ہے اور اس میں موجود راز عیاں کیے جاتے ہیں۔ اس کی مثال اس واقعہ کو بنایا جا سکتا ہے کہ جب لکھنؤ کے ایک نواب، میر تقی میر کو ایک ایسی جگہ لے گئے جہاں ایک طرف گھر تھا اور دوسری طرف باغ۔ باغ کا نظارہ کھڑکی کھول کر کیا جا سکتا تھا۔ میر جس دن وہاں تشریف لے گئے، اس روز کھڑکی بند تھی۔ انہوں نے اسے کبھی نہ کھولا۔ اور جب ایک دن ایک دوست نے آ کر بتایا کہ دوسری طرف باغ ہے تو میر نے کچھ غزلیں دکھاتے ہوئے جواب دیا۔
”اس باغ کی فکر میں ایسا لگا ہوں کہ اس باغ کی خبر بھی نہیں۔ “
دوسری قسم وہ ہے جس میں شاعر خدا کی تخلیقات کو دیکھتا ہے، مشاہدہ کرتا ہے اور اسے اپنی شاعری میں بیان کرتا جاتا ہے۔ اس قسم کی شاعری میں موسم، پہاڑ، ندیاں، دریا، برکھا، خزاں، پرند، انساں، بہار، رنگ، پودے، پھول الغرض مظاہر قدرت کا بیان ملتا ہے۔ اس قسم کے دیکھنے کی روایت ہمیں اردو غزل کے باوا آدم، ولی دکنی کے ہاں بھر پور رعنائی کے ساتھ ملتی ہے۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری لکھتے ہیں:
”ولی کے ہاں فکر و فلسفہ کی جگہ حواس، محسوسات اور جذبات کی شاعری ہے۔ اس شاعری کے منظر نامہ میں فطرت کا کردار بہت اہم ہے۔ زمین، آسمان، چاند، سورج، پھول، رنگ، باغ، میدان، پہاڑ اور خوشبو کے مظاہر چاروں طرف بکھرے نظر آتے ہیں۔ ولی ان مظاہر کا ان تھک تماشائی ہے۔“
جب شاعر اندرونی کائنات کی طرف دیکھتا ہے تو انسانی جذبات کے رنگوں کو معاشرے کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اور بیرونی کائنات کو دیکھتا ہے تو فطرت کے مظاہر کے رنگ چار سو بکھیر دیتا ہے۔ اس مضمون کا تعلق دیکھنے کی دوسری قسم سے وابستہ ہے، اور مقصد کائناتی رنگوں کے استعمال اور بیان کی جھلکیاں پیش کرنا۔ اردو کے ہر دور کے شعرا کے ہاں کائناتی رنگوں کا استعمال نظر آتا ہے۔ اردو کے ابتدائی دور میں اس کی مثال قلی قطب شاہ کی شاعری سے پیش کی جا سکتی ہے۔ قلی قطب شاہ نے اپنے عہد کے ہر موسم، تہوار اور میلے وغیرہ کو بیان کیا ہے اور ان موقعوں پر کون سے رنگوں کو زیادہ اہمیت حاصل تھی کو اپنی شاعری میں واضح کیا ہے۔ برسات کے موسم میں سبز رنگ کا مخمل فرش پر بچھا دیا جاتا اور سبز لباس زیب تن کیے جاتے تو دوسری طرف بسنت اور جشن نوروز میں سرخ رنگ کا راج ہوتا۔ ان کی شاعری سے چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
جھاڑاں کوں پھول ہور پھل سہتے ہیں جیوں جواہر
صدراں زمرد دی رنگ ہر اک محل بچھاؤ
سبز سارے نور تن کسوت کیے ہیں رنگ رنگ
سرو مینا میں سو شبنم کا سرا پایا بسنت
چوکہ کیا دیکھے کہ بائے لعل ادھر پر دانت رنگ
نکلے ہیں یک کھان تھے یاقوت و نیلم بے نظیر
مرزا محمد رفیع سودا کی شاعری میں عروس معنی، رنگینی معنی، اور حسن معنی ایسی تراکیب سے جمالیاتی حس کا پتہ چلتا ہے۔ ان کی جمالیاتی حس کی تیزی ہی کی بدولت رنگ، روشنی، بہار، گلزار، صبح، شادابی، شعلہ، سرخی اور آئینہ جیسے لفظوں سے کی گئی مصوری ملتی ہے۔ اور سنہرا، صندلی، حنائی، چمپئی، شفقی، سفید، گلابی، نیلا، بادامی، سبز، سرخ، کبودی اور پیلا رنگ اپنی بہار دکھاتے ہیں۔
جن نے نہ دیکھی ہو شفق صبح کی بہار
آ کر تیرے شہید کو دیکھے کفن کے بیچ
بکیں گو صندلیں رنگ آ کے بازار محبت میں
گنوا کر نقد دل اپنا نہ یہ تو درد سر لیجا۔
لعل حل کردہ ہے جوں ظرف بلوریں کے بیچ
پیرہن پہنے ہے جس دم وہ گل اندام سفید
میر تقی میر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی شاعری بیرونی مناظر کی بجائے اندرونی منظر کشی پیش کرتی ہے۔ مگر ایسا ہرگز نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ میر تقی میر کو ابتدائی ناقدین نے ہمارے سامنے پیش ہی ایسے کیا ہے کہ ہمیں ان پر بدھ مت کے بھکشو کا گماں ہوتا ہے، جو ہمیشہ مراقبے میں رہتا ہے۔ ڈاکٹر احتشام حسین اس بات کو یوں بیان کرتے ہیں۔
”اکثر لکھنے والوں نے ان کی داخلیت پر اتنا زور دیا کہ بیرونی دنیا سے میر کا جو تعلق تھا وہ نظر انداز ہو گیا۔“
میر تقی میر کے دیوان میں کشمیر کی وادی کے آسمانی رنگ سے لے کر زعفرانی رنگ تک، کئی طرح کے بے شمار رنگ موجود ہیں۔ اسی راز کی بدولت غالب نے میر تقی میر کے متعلق یوں کہا تھا۔
میر کے شعر کا احوال کہوں کیا غالب
جس کا دیوان کم از گلشن کشمیر نہیں

میر تقی میر کے دیوان میں سرخ، سبز، گلابی، نیلا، زرد، کاہی، زعفرانی، آبی، آتشی، حنائی، عنابی، شفقی، سفید اور سیاہ وغیرہ کے انوکھے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان مناظر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ میر تقی میر مصور کی طرح مختلف رنگوں کے اختلاط سے لفظی تصویریں کینوس پر اتار رہے ہیں۔
چاک دل ہے ازار کے سے رنگ
چشم پر خوں فگار کے سے رنگ
جام خوں بن نہیں ملتا ہے ہمیں صبح کو آب
جب سے اس چرخ سیہ کاسہ کے مہمان ہوئے
ٹھہرے نہ چرخ نیلی پہ انجم کی چشم شوخ
اس قصر میں لگا جو ہے کیا لاجورد ہے
یک معنی شگفتہ، سو رنگ بندھ گئے ہیں
الوان گل ہیں پر سو اب کی بہار سے بھی
اردو شاعری کے ہر شاعر کے یہاں بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ وہ رنگ کو کیسے دیکھتے، محسوس کرتے اور اپنی شخصیت میں جذب کرتے ہوئے، مناظر کی تصاویر کشی کرتے۔ شاعری میں رنگوں کے استعمال کے حوالے سے نظیر اکبر آبادی (عوامی شاعر) بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ نظیر اکبر آبادی ایسا شاعر ہے جس نے معاشرے میں جس چیز کا مشاہدہ کیا، اسے شاعری کی صورت پیش کیا۔ ان کی شاعری میں طلائی، سفید، چمپئی، سرخ، نیلا، سبز، کالا، جامنی، دھانی، بسنتی، سرمئی، گلابی، گلناری، زرد، مہندی، کاہی، آتشی، شمعی، خاکستری، کشمشی، غرض بے شمار قسم کے رنگ بکھرے پڑے ہیں۔ مگر وہ ان رنگوں کے بس نام ہی گنواتے ہیں، تصاویر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
پوشاک چھڑکواں سے ہر جا تیاری رنگیں پوشوں کی
ہر جاگہ زرد لباسوں سے ہوئی زینت سب آغوشوں کی
اور بھیگی جاگہ رنگوں سے ہر گنج گلی اور کوچوں کی
سو عیش و طرب کی دھومیں ہیں اور محفل میں مے نوشوں کی
مے نکلی جام گلابی سے کچھ لہک لہک کچھ چھلک چھلک
ان کو عوامی شاعر اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ ماحول اور عوامی مسائل کو بیان کرتے ہیں۔ ان دونوں چیزوں کو بیان کرنے کے لیے مشاہدہ لازمی عنصر ہے۔ اور مشاہدے کے بعد تنوع پیدا کرنے اور چیزوں کے درمیان حد تفاوق کھینچنے کے لیے مختلف رنگوں کا استعمال ناگزیر۔
چیزیں تضاد کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں اور تضاد واضح کرنے میں رنگ بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ شاعری کی اصل بنیاد تضاد ہے۔ شاعر مناظر کشی اور جذباتی منظر نگاری کرنے کے لئے رنگ استعمال کرتے ہیں۔ اس وجہ سے اردو شاعری میں رنگوں کی بہتات ہے اور ہر سو گلشن کھلے نظر آتے ہیں۔

علی حسن اویس

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button